میرا قتل ہوا تھا۔
یہی کوئی تین سال پہلے گھر سے نکلا تو دو موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار دی جب تک جسم سے نکل کر انکا چہرہ دیکھتا وہ جا چکے تھے ویسے چہرہ دیکھ بھی لیتا تو کیا کرتا، ایک مرا ہوا شخص کر ہی کیا سکتا ہے؟ ایک بیٹا تھا ایک بیوی، ماں باپ کو بڑھاپے میں جو درد دیا تھا انکا سامنا کرنے کی ہمت نہی ہوئی۔
سو وہیں سے قبرستان چلا آیا اپنی بے وقت موت کا دکھ تو تھا مگر شکر ہے قبرستان میں اچھے ساتھی ملے جنہوں نے کافی حوصلہ دیا ۔ آج تین سال ہونے کو ہیں جب بھی گھر سے کوئی آتا ہے تو قبر سے نکل کر دور چلا جاتا ہوں اماں کے تو خیر گھٹنوں میں درد رہتا ہے شروع شروع میں آتی رہیں بعد میں آنا چھوڑ دیا ۔ کچھ ماہ پہلے آنے والے ماسٹر جی بتاتے ہیں اب اماں کیلیے چلنا ممکن نہی رہا ہر وقت بیمار رہتی ہیں گلی محلہ بھی اچھا ہے زیادہ بیمار ہوں تو ہسپتال بھی لے جاتے ہیں ۔ یہی سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہوں کہ میرا بیٹا جوان ہوجائے گا تو دادی کو سنبھال لے گا ۔ اور ابا شاید ناراض ہیں۔ کبھی عید شب برات بھی ملنے نہی آتے ۔ جنازے کے ساتھ بھی آئے تو جنازہ پڑھ کے چل دیے۔ میری خواہش ہی رہی کہ جب قبر میں اتاریں گے تو ایک بار گلے لگا لونگا مگر خیر غلطی تو میری ہی تھی اگر اس دن انکا کہا مان کر گھر میں رک جاتا تو آج شاید یہاں نا ہوتا ۔ میری بیوی اکثر بیٹے کے ساتھ آتی ہے ساتھ کی قبر والے شیخ صاحب بتا رہے تھے میرے بیٹے کو قبر کی تختیاں پڑھنا آگئی ہیں اور سارا وقت اپنی ماں کو قبروں کے کتبے سناتا رہتا ہے میری بیوی خاموشی سے قبر دیکھتی رہتی اور پھول چڑھا کر چلی جاتی ہے پورے قبرستان میں صرف میری قبر ہے جس پر چنبیلی کے پھول ہوتے ہیں حالانکہ میری بیوی کو پھولوں سے الرجی تھی چنبیلی کا پھول تو دور سے دیکھ کر ہی اسے چھینکیں آنے لگتیں۔ میں اکثر اسے کہتا کہ مجھے چنبیلی کے پھول پسند ہیں اور شرارتا چنبیلی کا پھول اسے تنگ کرنے کیلیے خرید لاتا وہ خوف سے آنکھیں بند لیتی اور میں وہ پھول اسکے ناک کے قریب کرتا کبھی اس پر پھینک کر تنگ کرتا ۔ ناجانے اب کیسے وہ چنبیلی کے پھول خریدتی ہوگی ؟ اسکو تو ان سے الرجی تھی اور خوف کھاتی تھی۔
Comments
Post a Comment