Very important message for muslim community

 ‏دو ماہ سے کوئی میرے دروازے پر روزانہ کچرا پھینک کر چلا جاتا۔ بڑی کوشش کے باوجود وہ پکڑ میں نہیں آیا۔ اہلیہ نے کہا کہ

یقیناً یہ محلے کا کوئی ایسا بندہ ہے جو فجر کی نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہوگا اور مسجد جاتے ہوئے یہ 'کارنامہ' سرانجام دیتا جاتا ہوگا۔




اب مسئلہ تھا میرا اپنا۔ ‏میں پکا نہیں کچا مسلمان تھا۔ روزانہ دس بجے اٹھ کر فجر قضا پڑھنے والا۔


بیس دن قبل میں نے اہلیہ سے فجر میں اٹھانے کا کہا تو اہلیہ حیران کہ یہ آج سورج مشرق کے بجائے مغرب سے کیسے نکل رہا ہے۔ خیر انہوں نے مجھے اگلے روز فجر کے وقت اٹھا دیا۔ میں نے اٹھتے ہی کھڑکی سے نیچے جھانک ‏کر دیکھا تو دروازے پر کچرا موجود نہیں تھا۔ فٹافٹ وضو کیا ، کھڑکی کے پاس ہی مصلیٰ بچھایا اور دو رکعت سنت کھٹاکھٹ پڑھ کر پھر سے جھانک کر دیکھا تو کچرا دروازے پر پڑا میرا منہ چڑارہا تھا۔ خیر پھر دو رکعت فرض پڑھ کر دوبارہ سوگیا۔ 


اگلے دن سنت کے بجائے فرض پڑھتے کچرا پھینک دیا گیا۔ ‏چار دن اِسی طرح گزرگئے لیکن کچرا پھینکنے والے کو پکڑ نہیں پایا۔ پانچویں دن اہلیہ کہنے لگیں۔ "ماشاء اللہ آپ اب فجر کی نماز پڑھنے لگے ہیں تو مسجد میں باجماعت ہی نماز پڑھ لیا کیجیے۔


بات دل کو لگی اور پانچویں دن سنت گھر میں پڑھ کر جماعت سے پندرہ منٹ پہلے دروازے پر کرسی لگا کر ‏بیٹھ گیا اور محلے کے نمازی حضرات کو آتے دیکھنے لگا کہ کس نمازی کے ہاتھ میں کچرے کا شاپر ہے لیکن افسوس۔۔۔۔۔ سارے خالی ہاتھ آتے دکھائی دیے۔ نماز پڑھ کر آیا تو دروازے پر کچرا موجود نہیں تھا۔ 


ایک ہفتے مسلسل پابندی سے باجماعت نماز پڑھنے کے بعد میں نے اہلیہ سے کہا۔ "بیگم ! کچرا ‏پھینکنے والا شاید ڈر گیا ہے۔ جب ہی کچرا نہیں پھینک رہا۔ امید ہے کہ اب آئندہ نہیں پھینکے گا۔ اب آپ مجھے فجر کے وقت نہیں اٹھانا۔" اہلیہ کچھ نہیں بولیں۔


اگلے دن اہلیہ نے تو مجھے نہیں اٹھایا البتہ میری خود آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو کچرا دروازے پر موجود تھا۔ ٹائم دیکھا تو فجر کا وقت تو باقی تھا لیکن ‏جماعت نکل چکی تھی۔ اب اگلے دن پھر وہی معمول تھا۔ دو ہفتے مسلسل فجر کی نماز باجماعت پڑھتا رہا اور دروازہ صاف ستھرا ملتا رہا۔ دو ہفتے بعد اب میری جماعت سے فجر کی نماز پڑھنے کی عادت ہوچکی تھی اور میں باجماعت فجر کی نماز پڑھنا شروع ہو گیا۔


کچھ دن بعد ‏رات کے کھانے میں اُس کچرا پھینکنے والے کا ذکر آیا تو میں اُسے برا بھلا کہنے لگا۔ یہ سن کر میرا بیٹا بولا۔ "ابو آپ اُسے برا تو نا کہیں بلکہ وہ تو آپ کا محسن ہے جس کی وجہ سے آپ فجر کی نماز باجماعت پابندی سے پڑھنے لگے ہیں۔"


بیٹے کی بات سن کر میرے دماغ کو جھٹکا سا لگا۔ ایک خیال ذہن میں سرسرایا تو سب کو غور سے دیکھا۔ مجھے یوں ہونقوں کی طرح اپنی طرف دیکھتے ہوئے سب ہنسنے لگ گئے۔


بیٹا کہنے لگا۔ "ابو آپ کی وہ محسن کوئی اور نہیں بلکہ امی ہیں۔ آپ امی کا شکریہ ادا کیجیے۔" 


میں نے اہلیہ کو دیکھا تو مسکرا کر کہنے لگیں۔ "جب گھی سیدھی انگلی سے نا نکلے تو ٹیڑھی انگلی سے نکالنا پڑتا ہے جی۔ دیکھیں پھر۔۔۔۔ نکال لیا نا۔"


یہ سبق ہے سب بیویوں کے لیے کہ وہ ‏چاہیں تو اپنی اولاد کے علاوہ اپنے خاوند کی بھی تربیت کر سکتی ہیں۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ خود تربیت یافتہ ہوں۔۔۔!! 🙂🙂🙂

Comments