یہ وہی قرطبہ کی جامعہ مسجد قرطبہ ھے جہاں کبھی سات سو سال تک آذانوں کی آوازیں بلند ہوتی رہتی تھیں
مسجد قرطبہ، جو کوردوبا، اسپین میں واقع ہے، دنیا کے
مشہور ترین اسلامی مسجدوں میں سے ایک ہے۔
یہ مسجد عیسوی ۸ویں صدی میں بنی تھی اور اس کی تعمیر میں عرب، اسپانی، رومن اور وزیرستانی طرز کار کا استعمال کیا گیا۔ مسجد قرطبہ کی دیواروں کے اندر ، ایک بہت بڑی میں غیبی خلاء شامل ہے ، جسے مسجد کے نام کی بنا پر شہرت دی گئی ہے۔ مسجد قرطبہ ایک بہت ہی خوبصورت مسجد ہے جس کی تعمیر کی فن و ذوق کو دنیا برآمد کرتے ہیں۔ جب آپ کوردوبا جائیں تو ضرور مسجد قرطبہ کا دورہ کریں۔
یہ وہی قرطبہ کی جامعہ مسجد قرطبہ ھے جہاں کبھی سات سو سال تک آذانوں کی آوازیں بلند ہوتی رہتی تھیں۔لیکن اب یہاں گھنٹیاں اور صلیب نظر آتی ہیں۔اسپین کے سفر کے دوران جو چیز سب سے زیادہ اقبال کے نزدیک دلچسپی کا باعث بنی وہ مسجد قرطبہ تھی۔اس مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔اقبال نہ صرف مسجد کو دیکھنا چاہتے تھے بلکہ اس میں نمازِ بھی پڑھنا چاھتے تھے۔لیکن رکاوٹ یہ تھی کہ اسپین کے قانون کے مطابق یہاں نماز اور آذان دینا ممنوع تھا۔پروفیسر آرنلڈ کی کوشش سے اقبال کواس شرط پر نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی کہ وہ مسجد کے تمام دروازے بند کر کے نماز پڑھیں گۓ۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی اقبال نے اپنی آواز کی پوری قوت سے آذان دی،،اللہ اکبر اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر،،سات سو سال کے طویل عرصے میں یہ پہلی اذان تھی جو مسجد کے درو دیوار سے بلند ھوئ۔اذان سے فارغ ہو کر اقبال نے مصلئ بچھایا اور دو رکعت نماز پڑھی نماز میں آپ پر اس قدر زیادہ رقت طاری ھوئ کہ گریہ و زاری برداشت نہ کر سکے اور سجدے کی حالت میں ہی بے ہوش ھو گۓ جب آپ ہوش میں آئے تو آنسو نکل کر رخساروں سے بہہ رہے تھے۔اور سکون قلب حاصل ہو چکا تھا۔
جب آپ نے دعا کیلۓ ہاتھ أٹھاۓ تو یکایک اشعار کا نزول ہونا شروع ہو گیا ۔حتی کے پوری دعا اشعار میں مانگی۔اس دعا کے چند اشعار نقل کیۓ جاتے ہیں۔
ھے یہ ہی میری نماز ھے یہ ہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
راہ محبت میں ھےکون کسی کا
رفیق ساتھ میرے رہ گئ،
اک میری آرزو تجھ سے گریباں
مرا مطلعِ صبح نشور تجھ سے
مرے سینے میں آتشِ اللّٰہ ھو تجھ سے
مری زندگی سوزو تب و دردو داغ
تو ہی میری آرزو،توہی میری جستجو
پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر
کے میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے
توڑ کےجام وسبو تیری خدائی سے
ھے میرے جنوں کو گلہ اپنے لیۓ
لامکاں اور میرے لیۓ چار سو
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا ہے جیسے کہہ نہ سکیں رو برو
💜🖤💛🧡❤️
Comments
Post a Comment