رات کے دو بجے پولیس نے ناکے پہ ایک نوجوان لڑکی اور لڑکے کو روکا،وہ موٹر بائیک پہ تھے انہیں معاملہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی ،روک کر تھانے لے گئے،، ،ہاں بی بی کیا لگتا ہے تمہارا،،
،،ش شوہر ہے ،،،،،،،تھانے دار کے گرجدار استفسار کے سامنے لڑکی کی آواز بالکل معدوم تھی ۔۔وہ۔کسی اچھے گھر کی معصوم صورت لڑکی تھی ،لڑکے کو ،جسے باہر گاڑی میں بٹھایا گیا تھا،لایا گیا۔
،،یہ بی بی کیا لگتی ہے تمہاری،،؟
،،بہن ہے میری،،
اچھا بہن ہے ۔۔۔یہ کہہ کر تھانے دار نے اسکے چہرے پہ تھپڑوں کی بارش کر دی ،کہاں سے اغوا کر کے لاۓ ہو اسے،،۔
،،یہ خود آئ ہء۔۔میں نہیں لایا،،
اور پاس کھڑی لڑکی ،پورے قد سے ڈھے گئی ،جس کے بھروسے ساری کشتیاں جلا کر آئ تھی ،اسے تو کسی رشتے کا پاس بھی نہ تھا ،دونوں کم عمر تھے ۔۔نادانی کی عمر پھر پولیس کے کٹاپے کا ڈر۔۔۔ابھی تو فقط ٹریلر تھا ۔۔۔ایسا تو ان کے پلان میں تھا ہی نہیں ،سب بہت سادہ تھا ،
شہنا نے بس نیند کی گولیاں گھر میں موجود باپ ماں اور بھائ کو کھلانی تھیں۔۔۔جب نعیم آیا تو سب گھر والے نیند کی گولیوں کے زیر اثر سو رہے تھے ،جانوروں کا باڑہ ساتھ ہی تھا، حفظِ ماتقدم کے طور پہ نعیم نے صحن میں بندھی ہوئی بکری کے پیٹ میں پوری قوت سے گھونسا مارا،بکری بلبلا کر چلائی ،،،لیکن گھر میں کوئ حرکت نہ ہوئ ۔۔مطلب گھر والے اب صبح سے پہلے اٹھنے والے ہی نہیں ،،وہ جلدی سے اپنے محبوب کے ساتھ بائیک پہ سوار ہوئ ،یہاں سے لاہور کی بس پہ سوار ہوتے ،جہاں نعیم کا دوست نکاح خواں کے ساتھ ان کا منتظر تھا۔۔۔نکاح کے چند ماہ بعد وہ واپس آکر ماں باپ سے معافی مانگ لیتی ۔۔۔۔۔وہ لاڈلی تھی ،باپ بہت محبت کرتا تھا اس سے۔۔۔۔معاف کیوں نہ کرتا۔۔ سارا منصوبہ تیار تھا۔۔۔لیکن اس میں۔ پولیس کا تو ذکر بھی نہیں تھا،یہ تو آفت ناگہانی بن کر ٹوٹ پڑی تھی ،اور اس آفت نے نعیم۔کو پابند سلاسل کیا ،شہناکےبتاۓ پتہ پہ پہنچے۔۔۔گھر کے باہر ٹیوب ویل تھا۔۔شہنانےگاڑی سے اترتے ہی اس کنویں میں چھلانگ لگانے کی کوشش کی ۔۔سپاہیوں نے بڑی مشکل سے اسے قابو کر رکھا تھا، یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ لیڈی کانسٹیبل بلانے کا وقت ہی نہیں تھا ۔۔
دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔۔ سوئ ہوئ قسمت کی طرح ،کوئ جاگا ہی نہیں ۔دو اسکے تایا زاد اور خود تایا،شور سن کر آۓ۔ تھانے دار سے معاملہ دریافت کیا ،
چچا کے بیٹے نے دیوار پھلانگ کر دروازہ کھولا اور سب کو گھر میں بٹھا کر کنڈی لگا دی ۔۔
بھائ تو ابھی چھوٹا تھا۔۔بمشکل ماں باپ کو اٹھایا گیا،اور جیسے ہی باپ نے پولیس کی حراست میں بیٹی کو دیکھا ،گویا زمین پھٹ چکی ۔۔۔اور آہستہ آہستہ نگل رہی ہے تھانے دار نے ایک زناٹے دار تھپڑ بابا کو مارا
،،بابا،،وہ تڑپ کر بولی۔۔۔
،،لڑکیاں تمہاری ،گھروں سے بھاگ کر کہیں پہنچی ہوئ ہیں اور تمہاری نیند پوری نہیں ہو رہی،،تمہیں نیندیں سوجھ رہی ہیں۔۔۔پولیس والوں کی زبان ایسی ہی دو دھاری ہوتی ہے ۔۔اگلے وجود کی چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔۔۔لیکن یہاں تو وہ زندہ ہی نہیں تھے ایسے جیسے کسی برے خواب کے زیرِ اثر ہوں ۔۔۔
شکوہ کناں نظروں سے بیٹی کو دیکھا۔۔۔ تم خود جنازہ نکال کر چوک میں الٹا لٹکا گئی ہو اور وہ تھپڑ بھی نہ مارے،ابھی سے مت رو بیٹا۔۔ابھی تو کئی کوڑے سہنے پڑیں گے ۔۔۔ابھی تو ہر روز حد لگے گی ۔ پھر نسل در نسل خراج ہو گا۔۔۔کیسا نرالا کاروبار کیا تو نے بیٹی ۔۔ سود در سود ہی بھرتے رہیں گے ۔۔۔۔ بابا نے اپنی رُّلی ہوئ داغدار پگ اٹھائی اور روتے ہو ۓ تھانے دار کے ہیروں میں رکھ دی،،معاف کر دو مائ باپ۔۔۔انکھ چوک گئی تھی بس ۔۔،پلک جھپک لی ،نیند آگئی ۔۔۔اس ایک پہر کی نیند نے سب کچھ چھین لیا ۔۔۔
پولیس کو دے دلا کر رخصت کر دیا گیا۔۔۔لیکن اب س گناہ کی پوٹ کا کیا کریں ۔۔۔اب یہ گھر میں رکھنے کے قابل نہیں رہی۔۔اب تو سب خاندان والے جوکہ پولیس کی گاڑی دیکھ کر جمع ہو چکے تھے ۔بابا کی جانب دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے بیٹی کو کلہاڑی کے وار سے ٹھکانے لگاۓ کہ وہ کہانی کا ڈراپ سین دیکھ کر اپنے گھروں میں موجود تمام جوان لڑکیوں کو بتائیں ۔کہ یہ ہے محبت اور یہ اس کا انجام ۔۔۔لیکن بابا کے ہاتھوں میں اب اتنی سکت بھی نہیں تھی ۔۔ہاتھ میں مسلی ہوئی پگڑی لئے بھائ کی جانب لپکا۔۔۔،،لالے،میری بیٹی ناسمجھ ہے ۔۔۔اپنا سمجھ کر پردہ رکھ لے،،
اور شہنا مرتے مرتے اکھڑے سانس لینے لگی ۔۔۔ تایا کے بیٹے سے شادی کا مطلب تمام عمر نزع کی حالت میں رہنا تھا۔۔اسکے اتھرے پن کی وجہ سے بابا نے انہیں رشتے سے انکار کیا تھا اور اب ہاتھ جوڑ کر اس کو پیش کر رہے تھے ،، تایا کے خون نے جوش مارا ،،ٹھیک ہے۔۔ ،میرا رحمان شادی کرے گا ۔۔
لیکن رحمان فورا اٹھا،،ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔۔لیکن نکاح کے بعد اس کا فیصلہ میں کروں گا۔۔۔میں اسے بسا نہیں سکتا ۔۔اگر یہ مر گئی تو اس کا خون معاف ہو گامجھے ،،
بابا نےسہم کر دیکھا۔۔۔اور تایا کے کندھے کا سہارا لے کر اٹھتے ہوئے کہا۔۔،،رات بہت ہو گئی ہے ۔لالے بچوں کو گھر لے جا۔۔،،
یوں سب ناکام لوٹ آئے ،صبح کا سورج ابھرنے سے پہلے بات تمام گآؤں میں پھیل چکی تھی ۔۔
وہ لاڈلی تھی اس کی جان بخشی کر دی گئی تھی ۔۔۔لیکن۔ کیا یہ جان بخشی تھی ۔۔یہ تو تمام عمر کی قید تھی ۔۔۔۔وہ کمہاروں کی زات کا لڑکا تھا ،،دل ہار بیٹھا تو محبت نامے لکھنے لگا ۔۔۔شہنا پڑھ کر جلا دیتی ۔۔یہاں تک کہ لفظوں کی تپش سے پگھلنے لگی ۔۔۔،وہ پروانہ بنا تو وہ قانون قدرت کے پرانے قانون محبت کے تحت خود ہی شمع کی صورت ڈھل گئی روشنی پھیلنے لگی یہاں تک کہ اسکے چار سو اجالاہوگیا ،،مقدر کے اندھیرے اس چکاچوند کی بدولت نظروں سے اوجھل ہو گئے۔۔۔یہ مدھم روشنی کیسے آگ میں بدلی اور تمام گھر جل کر خاکستر ہو گیا۔۔۔کیسے کالک مقدر میں بھر گئی ۔۔۔ماں تو بس روتی ہی رہتی ۔۔۔ اس سے کوئ بات نہ کرتا۔۔۔آخر کسی رشتہ کروانے والی کی مدد سے دور دراز کے گاؤ ں میں اس کی رخصتی اس تنبیہہ کے ساتھ کر دی گئی کہ تم ہمارے لئے مر گئیں اور ہم تمہارے لئے،،
اسنے کبھی پلٹ کر نہ دیکھا ،شوہر خوب قدر کرتا،کبھی نعیم۔کی یاد آتی تو آنسو خود بخود بہہ نکلتے ، پوچھنے پہ میکے کی یاد کا بہانہ کرتی
،،روندی یاراں نوں ۔۔۔لے کے ناں پراواں دا،،
نعیم کو اسکے بھائیوں نے بیرون ملک بھیج دیا تھا کہ یہاں اسکی جان کو خطرہ تھا۔۔اور وہ دنیا کا آخری مرد بھی ہوتا تو چوہدریوں کی بیٹی اسے نہ ملتی ۔۔یہ قانون تھا ۔جو کبھی نہیں بدل سکتا
اللہ نے اسے پیاری سی بیٹی سے نوازا۔۔۔۔اتنی ہی مہلت تھی بس ۔۔کسی نے اسکے شوہر کے سامنے اسکا ماضی کھول کر رکھ دیا ۔رسوائ پیچھا کرتے کرتے گھر تک پہنچ آئ تھی ۔۔۔،غیرت مندوں نے بڑا غیرت مند مرد ڈھونڈا تھا اسکے لئے ۔۔۔وہ اس کا باپ نہیں تھا جو معاف کردیتا۔۔۔طلاق کا داغ لے کر وہ اسی دہلیز پہ واپس آ گئی جسے پھلانگنےکا گناہ کر چکی تھی اور جس کی سزا ختم ہی نہ ہوتی تھی ، چند مہینے کی صدف کو لے کر واپس آگئی ۔۔۔۔باپ نے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ہاتھ جوڑ کر ایک بار پھر رخصت کر دیا۔۔۔نئے شوہر نے ماضی تو قبول کر لیا لیکن ایک جیتی جاگتی بچی؟ ۔
اولاد کی جدائ ایک مستقل روگ کی طرح اس سے چمٹی ہے۔۔۔یہ روگ دیمک کی طرح اسے اور اسکی بیٹی کو ہر روز اندر سے کھاتا ہے۔۔۔اور زندگی فقط ایک ،،کاش ،،بن کر رہ گئی ہے
Comments
Post a Comment