ہماری بیٹی کے لیئے کوئی بڑھے گھر کا رشتہ دیکھو

 دیکھیں بھائی ہماری بیٹی پڑھی لکھی ہے سکول میں ٹیچر ہے

30 ہزار مہینے کے کماتی ہے ☝


ہماری بیٹی کے لیئے کوئی بڑھے گھر کا رشتہ دیکھو
غریب خاندان والے تو ہماری بیٹی سے نہیں اس کی کمائی دیکھ کر بیاہ کریں گے
ماں رشتہ کروانے والی آنٹی سے بات کر رہی تھی
رشتہ کروانے والی مسکرائی بلکل بہن آپ پریشان نہ ہوں
اللہ کے حکم سے ایسا لڑکا ڈھونڈوں گی آپ کی بیٹی کے لیئے
کے میرے مرنے کے بعد بھی دعائیں دے گی کے آنٹی اچھا رشتہ کروا گئی تھی

آپ چائے پیئں آرام سے اور اب سے بس آپ اپنی بیٹی کو بیاہنے کی تیاری شروع کر دیں

کوشش کرنا لڑکا کہیں امریکا مروکا ہوے
ماں آہستہ سے بولی
رشتے کروانے والی نے تسلی دی بے فکر ہو جاو بہن اپنی بیٹی سمجھ کر رشتہ کرواوں گی
ماں گھر آئی فجر بیٹی کہاں ہو
فجر لیپ ٹاپ پہ کچھ اسائنمنٹ بنا رہی تھی
جی ماما کہاں گئی ہوئی تھی آپ
ماں دوپٹہ سر سے اتارتے ہوئے بس اللہ تمہارے لیئے کوئی اچھا سا رشتہ بیجھ دے
فجر لیپ ٹاپ سائیڈ رکھا
ماما بس میری شادی کی فکر رہتی آپ کو
میں نہیں کرنی شادی مجھے ڈر لگتا ہے ماما
ماں گھورتے ہوئے بولی ڈر لگتا ہے تم۔کو گھر تو بسانا ہی ہے نا
کل۔کو ہم مر گئے تو کم۔سے کم تم۔اپنے گھر میں خوش ہو گی نا
میں تو اپنی فجر کی کہیں امریکا لندن ہی شادی کروں
فجر ماں کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگی ماما
رحم۔کریں
مجھے نہیں جانا پاکستان سے کہیں باہر
ماں دھیمے سے بولی پاکستان میں کیا رکھا ہے
یہاں بھوک غریبی لوٹ مار یہاں کیا ہے
وہاں رہو گی زندگی سنور جائے گی
مجھے بابا سے دور نہیں جانا بس کرنی ہے تو پاکستان میں ہی نہیں تو قسم سے میں شادی کے لیئے نہیں ہاں کروں گی
ماں نے غصے سے بولا چپ کرو جاو مجھے پانی کا گلاس لا کر دو
تم۔تو بکواس کرتی رہتی ہو
کب تک لوگوں کے بچوں کو پڑھاتی رہو گی
وہاں جاو گی عیش کرو
بابا بھی آ گئے فجر بابا کی طرف دیکھنے لگی بابا جان دیکھو ماما کی ضد کہہ رہی پاکستان سے باہر شادی کروانی ہے باپ نے سر پہ ہاتھ رکھا ماں تو پاگل تمہاری وہی کروں گا میں جو میری بیٹی چاہے گی
تم جاو اپنے کمرے میں آرام۔کرو
فجر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
باپ ماما کو سمجھانے لگا بیٹی کو ملک سے باہر شادی کروانے کی سوچ دل سے نکال تو
ایک ہی اکلوتی بیٹی ہے اور ایک بیٹا ہے ہمارا
ملک میں ہو گی تو اچھے برے وقت میں اس کے پاس پہنچ جائیں گے وہ ہمارے پاس آ جائے گی لیکن
اتنی دور کچھ اونچ نیچ ہو جائے تو کون کیسے جائے گا
ماں کی ضد تھی بس بیٹی کو کسی امریکا یا لندن والے لڑکے سے بیاہنا ہے

ایک رشتہ آیا لڑکے کا نام عاقب تھا

اسٹائلش ماڈرن پینٹ شرٹ پھٹی جینز پہننے والا
بال براون کیئے ہوئے کان میں بالی پہنی ہوئی چھوٹی چھوٹی داڑھی مونچھ
بلکل کسی رمانٹک مووی کا ہیرو لگ رہا تھا
یونان کا پاسپورٹ تھا اس کے پاس
ایک ماں تھی پاکستان میں باقی کوئی بہن بھائی نہ تھا
رشتے والی آنٹی نے بتایا
لڑکا یونان میں سیٹل ہے
نہ کوئی دیورانی نہ جھٹانی اور نہ ہی کوئی نند کا سپایا ہے
ایک ساس ہے بیمار رہیتی ہے کیا پتا وہ بھی کب مر کھپ جائے
ویسے بھی فجر نے کون سا یہاں رہنا ہے لڑکا کہہ رہا ہے شادی کے بعد ساتھ لیکر جائے گا فجر کو
ماں بہت خوش تھی بس بہن رشتہ ہاتھ سے نہ جانے دینا
ابھی فجر کی تصاویر دکھاو اس کو
مجھے پتا ہے میری بیٹی اس کو پہلی نظر میں ہی پسند آ جانی یے
رشتے والی آنٹی نے حوصلہ دیا وہ نیک سیرت بیوی چاہتا ہے بس
بہت بھلا لڑکا ہے
میں تو اس سے بات کی بھئی اس کا اخلاق ماشاللہ
جاب ڈال دیتا ہے اتنا اچھا اخلاق اس کا
میں تو سوچتی میری بیٹی ہوتی میں ایک پل نہ لگاتی اس سے شادی کروا دیتی
فجر کی ماں بہت خوش تھی بس بہن لاکھ روپیہ تم۔کو بھی دے دوں گی بس کروا میری فجر کی شادی اس یونان والے لڑکے سے
بھائی میں پہلے نمبر پہ آئی ہوں پوری کلاس سے
میں نے اپ کو اپنی رزلٹ والے دن کی تصویریں بیجھی ہیں
ماشاللہ تو اب پارٹی کب دو گی پھر فرسٹ کی
بھائی جب آپ گھر آئیں گے پھر
اشہر تصاویر دیکھتے ہوئے بولا واہ میری لاڈلی سی چوہی اب تو بڑی ہو گئی
بہن منہ بنا کر بولی بھائی اشہر اب میرا سیدھا نام بلایا کریں کرن
میں اب آٹھویں جماعت میں ہوں جب آپ گئے تھے میں پانچویں میں تھی
اچھا کرن سنو یہ جو لڑکی ایک تصویر میں ہے وہ تمہاری ٹیچر یے
ہاں اشہر بھائی دیکھو میری ٹیچر کتنی پیاری ہے
اشہر مذاق میں بولا اچھا کیا شادی ہو گئی ٹیچر کی
کرن نہیں بھائی ابھی تو منگنی ہوئی ٹیچر کا ہزبنڈ بہار ہوتا کسی ملک
اشہر بھی یونان ہی تھا اسے گئے 3 سال ہو گئے تھے
یونان سیکورٹی گارڈز میں جاب کرتا تھا
جسم و جاں میں کافی طاقتور سخت جان
جم جانے والے
شکل و صورت سے بھی پیارا تھا

فجر سکول سے آئی ہی تھی کے ماں نے بولا فجر جلدی سے ریڈی ہو جا لڑکے والے 4 بجے آ جائیں گے
عاقب کی بڑھی ماں ساتھ ایک ادھیڑ عمر شخص
آئے فجر کو دیکھا پسند کیا
کہنے لگے ہمارا بیٹا 10 دن کی چھٹی کے لیئے پاکستان آئے گا
بس ہم چاہتے ہیں جلدی سے شادی کریں عاقب کا بزنس ہے وہاں وہ زیادہ دن نہیں رک سکے گا
ماں تو خوش ہو گئی سن کر واہ عاقب بزنس کرتا ہے
میری فجر شہزادی بن کر عیش کرے گی
فجر نے بہت کہا ماں سے ماما مجھے پاکستان میں ہی کسی ان پڑھ غریب کے ساتھ بیاہ دیں لیکن اتنی دور مجھے نہیں جانا
ماں کہاں سننے والی تھی ڈانٹ کر بولی میں تمہاری دشمن ہوں کیا
ماں ہوں تمہاری تمہارا بھلا ہی چاہتی ہوں اب چپ ہو جا
فجر کی آنکھیں نم تھیں نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے تھے
اس کی گوری گالوں پہ آنسو موتی کی طرح بہنے لگے ماں نے سر پہ ہاتھ رکھا
فجر لڑکا اچھا ہے رشتے والی نے ضمانت لی ہے تم کیوں پریشان ہو رہی ہو

فجر آنسو پونچھے اپنے کمرے میں چلی گئی

ماما کیوں نہیں سمجھتی ہیں میری بات
عاقب بھلا جیسا بھی وہ مجھے پاکستان میں ہی رہنے دے خود چلا جائے وہاں
دن گزرے کے عاقب کا فون آیا فجر کو میری جان آپ کو کچھ چاہیئے کیا میں لے آوں آپ کے لیئے
فجر نے دھیمی سی آواز میں کیا نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے
اچھا میں پرسوں کی فلائٹ سے آ رہا ہوں
پاسپورٹ تمہارے کی کاپی مجھے مل گئی تھی میں نے اپلائی کر دیا ہے ویزہ تمہارا
یہ سن کر فجر کا دل زور سے دھڑکنے لگا
اللہ حافظ بول کر موبائل سائیڈ پہ رکھ دیا
نہ جانے کن خیالوں میں کھو گئی تھی چائے ٹیبل پہ پڑی ٹھنڈی ہو گئی تھی
رات کے 2 بج رہے تھے خدا جانے کیا خیال آیا دل میں
وضو کیا نوافل ادا کرنے لگی
اے اللہ وہاں میرے ساتھ تمہارے سہارے کے سوا کوئی نہی ہو گا
میری حفاظت کرنا
لڑکیاں نصیب سے ڈر جاتی ہیں
ایک نکاح ایک ہمسفر ایک قبول ایک انسان زندگی کو جنت بھی بنا سکتا ہے اور زندگی کو ناسور بھی
عاقب پاکستان پہنچ چکا تھا شادی کی تیاری ہونے لگی فجر نے سکول سے ریزائن دے دیا
سب کزنز سب رشتہ دار باتیں کر رہے تھے فجر کتنے نصیب والی ہے
جس کا شہور یونان میں ہے بزنس مین ہے سنا ہے لاہور میں اس کی بہت بڑی کوٹھی ہے
عاقب کی تصویر دیکھ کر ایک کزن بولی جتنا پیارا ہے نا جیجو خیال کرنا کوئی اور نہ چرا کر لے جائے
فجر افسردہ سے لہجے میں بولی یار نہ کرو
میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں
آج دلہن بنی ہوئی تھی عاقب سادگی سے شادی کرنا چاہتا تھا
صرف چند لوگ آئے تھے نہ ڈھول باجا تھا نہ گیت سنگیت
بارات دروازے پہ پہنچی معلوم ہوا بارات آ گئی
سب تعریفیں کر رہے تھے کتنا سادہ لوح انسان ہے عاقب
ایسے لڑکے مشکل سے ملتے ہیں
عاقب نے کان میں بالی پہنی ہوئی شیروانی میں تھا بہت پیارا لگ رہا تھا
وقت نکاح ہوا
جسم بے جان سا تھا آنکھوں میں ایک آنسو کا سمندر روکے ہوئے
مولوی صاحب نے پوچھا کیا آپ کو عاقب سے نکاح قبول ہے آواز کانپ رہی تھی
دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں جکڑ کر مسل رہی تھی
ایک ہاں ایک قبول دنیا بدل جائے گی
آہستہ سے بولی قبول ہے
پھر پوچھا قبول ہے
فجر نے قبول کر لیا
پلکیں بھیگ گئی تھیں
دستخط کر رہی تھی ایک آنسو نکاح نامے پہ گرا باپ نے سر پہ ہاتھ رکھا بیٹی اللہ نصیب اچھے کرے
عاقب نے بھی قبول کر لیا
مبارک باد دی
فجر عاقب کی ہو چکی تھی سب کھانا کھانے لگے
وقت رخصتی آیا
ماں نے دعائیں دے کر وداع کیا
عاقب کے ہاتھ میں ہاتھ تھا اب خدا جانے عاقب کیا لکھنے والا تھا قمست کی کتاب میں
بابا کے سینے لگ کر روئی
بابا کی طرف دیکھ کر بولی بابا آخر جدا ہی کیوں ہونا ہوتا ہے بیٹیوں کو
رخصت ہو گئی لاہور پہنچے
یہ بہت بڑا گھر عاقب کا ۔۔۔۔۔۔۔۔دروازہ کھلا گھر پھولوں سے سجایا ہوا تھا
کمرے میں گئے پھولوں سے سجا بیڈ فجرتھک چکی تھی
رات کے بارہ بج گئے تھے
عاقب نے فجر کا ہاتھ پکڑا چوم کر بولا میری جان ریلکس ہو جاو
اب میں کوئی اجنبی نہیں بلکہ تمہارا ہمسفر ہوں
فجر کا دل چاہ رہا تھا آج ہی عاقب سے کہے مجھے آپ کے ساتھ یونان نہیں جانا مجھے پاکستان ہی رہنا ہے
لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی
اتنے میں عاقب کے موبائل کی گھنٹی بجی
فون اٹھا کر کمرے سے باہر چلا گیا
بارش بہت تیز ہو رہی تھی
بجلی گرج رہی تھی
فجر کمرے میں اکیلی بیٹھی عاقب کا انتظار کرنے لگی
کھڑکی کھولی بارش کی بوندیں کھڑکی سے اندر آنے لگی
کھڑکی سے ہاتھ باہرنکال کر بارش کو محسوس کرنے لگی اتنے میں عاقب فون پہ جیسے کسی کے ساتھ جھگڑا رہا تھا
فجر نے قریب جا کر دیکھا تو
عاقب کسی سے کہہ رہا تھا مجھے 4 دن کے اندر میری بیوی کا ویزا چاہیئے
4 دن کے بعد میں اپنی بیوی کے ساتھ ا رہا ہوں سمجھے
فجر واپس کمرے میں آ گئی
عاقب پاس آیا میری جان اداس ہو
موسم دیکھو کتنا سہانا ہے اور ویسے بھی تمہارے اس خوبصورت چہرے پہ اداسی اچھی نہیں لگتی
فجر کا ہاتھ تھاما فجر میں نے خواب مییں بھی نہیں سوچا تھا
مجھے اتنی خوبصورت ہمسفر ملے گی
فجر پیار سے بولی عاقب ایک بات کہوں
عاقب نے ہاں میں سر ہلایا ہاں میری جان کہو نا
عاقب جب آپ یونان جانے کی بات کرتے ہیں مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے
کیا اپ مجھے یہی نہیں چھوڑ کر جا سکتے
میں نہیں جانا چاہتی اتنی دور
عاقب مسکرایا ہائے میری جان ڈر گھبراہٹ کس بات کی
وہاں جاو گی تو پاکستان کو بھول جاو گی
یہاں نہ بجلی ہوتی ہر جگہ گندگی پھیلی ہوئی ہر چیز ملاوٹ والی ملتی
وہاں بلکل جنت سا ہے سب کچھ
فجر افسردگی میں بولی پھر بھی عاقب میرا نہیں دل مانتا جانے کو
عاقب نے پیار سے سمجھایا میں ہوں نا تمہارے ساتھ اگر دل نہ لگا تو واپس آ جانا کون سا ہمیشہ کے لیئے جانا ہے
آج روانگی تھی سامان پیک کر لیا تھا
ماما بابا سے ملنے آئی بھائی کو سمجھانے لگی اب تم بڑے ہو گئے ہو ماما بابا کا خیال رکھنا یہ میرا لیپ ٹاپ اب تم رکھ لو
ماں کی طرف دیکھ کر بولی میرے بابا کا خیال رکھنا بہت بھولے سے ہیں بابا میرے
بابا کے سینے لگ کر بہت روئی
ماں نے دعا دے کر الوداع کیا
باپ نے عاقب سے کہا بیٹا بہت نازک سی ہے بیٹی میری میں نے بڑے لاڈوں سے پالا ہے اسے
کبھی اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کی
خیال رکھنا میری فجر کا
عاقب نے وعدہ کیا آپ کی فجر کو خوش رکھوں گا
رخصت ہوئے
لمبے سفر کے بعد یونان کی سر زمین پہ اتر گئے تھے
فجر دیکھ رہی تھی ہر طرف خوبصورت گھر تھے صاف ستھری سڑکیں تھیں
بڑی بڑی بلڈنگز تھیں عاقب بتا رہا تھا یہ اس شہر کی مشہور جگہ ہے
تم۔کو گھمانے لاوں گا ایک دن
فجر بہت تھک چکی تھی
ایک گھر کے سامنے کار رکی عاقب نے سامان نکالا
فجر کی طرف دیکھ کر بولا یہ
میری جان یہ ہمارا گھر فجر حیران تھی عاقب اتنا بڑا گھر یہ ہمارا ہے عاقب نے ہاں میں سر ہلایا
گھر میں گئے کیا خوبصورت گھر ہے
صفائی والی کو بول کر گیا تھا روز آیا کرنا لیکن ایک نمبر کی کام چور ہے
فجر مسکرائی چلیں اب صفائی والی کی ضرورت نہیں رہے گی میں خود کر لیا کروں گی سب کچھ
عاقب نے بانہوں میں بھرا میری جان آپ سے کوئی میں نے گھر کام کروانے ہیں
آپ میرے دل میری زندگی کی شہزادی ہیں
فجر کو بھوک بھی لگی ہوئی تھی عاقب بولا میں نے کھانا آرڈر کیا ہے جب تک کھانا آتا ہے میں شاور لے لوں
کھانا آیا کھانا کھا کر فجر بولی عاقب مجھے بہت نیند آئی ہے میں سونے لگی ہوں
عاقب مسکرایا او کے میری جان سو جائیں
فجر بستر پہ لیٹی سو گئی
عاقب بھی کچھ ٹائم بعد سو گیا
صبح ہوئی عاقب نے اہنا موبائل دیا فجر کو جان کچھ بھی چاہیے ہو یا اداس ہو جاو تو مجھے کال کر لینا
میں آفس جا رہا ہوں او کے
اہنا خیال رکھنا
فجر اداسی میں بولی عاقب جلدی گھر آ جانا
عاقب نے چہرے پہ ہاتھ رکھا میری جان آ جاوں گا
مس یو
عاقب چلا گیا

کچھ دیر بعد دروازے پہ گھنٹی بجی
فجر سمجھی عاقب آگیا ہے دروازہ کھولا سامنے ایک کالا افریکن لڑکا تھا ہاتھ میں ایک بیگ تھا
انگلش میں بولا عاقب سر نے بیجھا ہے آپ ان سے بات کر لیں
فجر نے دروازہ بند کیا عاقب کو فون ملایا
عاقب ایک کالا سا لڑکا آیا ہے کہہ رہا ہے آپ نے بیجھا یے
عاقب پیار سے بولا ہے وہ ورکر ہے میرا وہ بیگ لے کر اپنے کمرے میں الماری میں رکھ دو میں آ کر لے لوں گا سنبھال کر رکھنا
فجر نے بیگ کیا الماری میں رکھ دیا
رات کو عاقب آیا فجر ٹی وی دیکھ رہی تھی
کارٹون ٹوم جیری بلی چوہا
والے کارٹون بہت شوق سے دیکھتی تھی فیورٹ تھی فجر کے
عاقب پاس بیٹھا آکر میری جان کا دن کیسا گزرا
فجر مسکرائی بہت ہی اچھا جان
چلو ریڈی ہو جاو ڈنر کرنے باہر چلتے ہیں
فجر سینے سے آ لگی عاقب بہت اچھے ہیں
میں بیت ڈرتی تھی کے آپ کیسے ہوں گے کیسا سلوک کریں گے میرے ساتھ
لیکن آپ کا ساتھ پا کر میری زندگی جنت بن گئی
کینڈل نائٹ ڈنر کر رہے تھے
ٹھنڈی ہلکی ہوا چل رہی تھی فجر موسم انجوائے کرتے ہوئے
لوگوں کو دیکھ رہی تھی
عاقب یہ کتنا مہنگا ہوٹل ہے نا اتنا کچھ منگوا لیا آپ نے
عاقب ہنسنے لگا میری جان میرا سب کچھ تمہارے لیئے ہی تو ہے
ڈنر ہوا خوب انجوائے کیا گھر چلے گئے
دوسرے دن عاقب آفس گیا
دن کے 1 بج رہے تھے عاقب نے فون کیا فجر جو بیگ تم نے الماری میں رکھا تھا نا وہ لیکر جاو
باہر ایک کار کھڑی ہے کالے رنگ کی اس میں بیٹھ جاو اور یہ بیگ خود ذمہ داری کے ساتھ پہنچا دو ڈرائیور کو معلوم ہے کہاں جانا ہے
فجر نے حیرانگی میں کہا عاقب میری جان میں کیا کہوں گی آپ ڈرائیور سے کہو وہ ہی لے جائے
عاقب پیار سے بولا میری جان بہت قیمتی سامان ہے اس میں آپ کے سوا میں کسی پہ یقین نہیں کر سکتا
بیگ لیئے فجر کار میں جا بیٹھی
ایک ہوٹل کے سامنے کار رکی ایک لڑکی اور دو لڑکے بد صورت سے کار کے پاس آئے
بیگ لیا عاقب سے بات کی چلے گئے
ہر دو دن بعد فجر ایک نیا بیگ ہر نئے چہرے کو دینے جاتی تھی
ایک دن وہ بیگ دے رہی تھی کے اشہر نے فجر کو دیکھ لیا
وہ دیکھتے ہی پہچان گیا یہ تو کرن کی ٹیچر لگ رہی ہے
لیکن یہ یہاں کیسے
پھر سوچنے لگا ہو سکتا ٹیچر جیسی کوئی لڑکی ہو
گھر گیا بہن کو پوچھا آپ کی ٹیچر سکول آتی ہے
بہن نے بتایا ٹیچر کی تو شادی ہو گئی وہ اپنے ہسبنڈ کے ساتھ باہر چلی گئی ہیں
اشہر سمجھ گیا تھا ٹیچر ہی ہے
اشہر تھا تو سیکورٹی فورسز میں لیکن اس کا ایک دوست وہاں کی پولیس میں تھا
اس نے بتایا تھا عاقب نامی لڑکا پاکستانی
وہ ڈرگ سمگلر ہے وہ پاکستانی کسی لڑکی کو لیکر آیا ہے اس کا استعمال کر رہا ہے
ہم اسے رنگے ہاتھوں پکڑنے والے ہیں بہت جلد
اشہر کو کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا کیا سچ میں ٹیچر عاقب کے ساتھ آئی ہے
کیا ٹیچر ہی ہے وہ لڑکی جس کا استعمال عاقب کر رہا ہے
فجر بیچاری ہر چیز سے انجان وہ اپنے شوہر کی ہر بات مان لیتی تھی
اشہر نے پولیس والے دوست کو بتایا میں اس لڑکی کو جانتا ہوں یہاں تک مجھے سمجھ ہے وہ لڑکی عاقب کے بارے کچھ نہیں جانتی
پولیس والے دوست نے بتایا اشہر تم میرے دوست ہو
تم اچھی طرح جانتے ہو یہاں ڈرگ سمگلر کی سزا صرف موت ہے
میں یہی کہون گا تم۔اس لڑکی اور اس معاملے سے دور رہو
اشہر خاموش ہو گیا
انتظار کرنے لگا دوسرے دن عاقب کے گھر کے باہر کھڑا ہو کر
فجر ہاتھ میں بیگ لیئے کار میں بیٹھی
جس کو بیگ دینا تھا دیا واپس آنے لگی تو ایک مارکیٹ میں چلی گئی کچھ شاپنگ کرنے
ڈرائیور بھی ساتھ تھا
اشہر موقع تلاش کرنے لگا کب فجر اکیلی ہو میں اسے سچ بتاوں
لیکن ڈرائیور شاید سب جانتا تھا وہ نظر رکھے ہوئے تھا ہر طرف
اشہر پیچھا کرتا رہا لیکن موقع نہ ملا
ایک دو بار فجر کی نظر پڑی تھی اشہر پہ
لیکن فجر اگنور کر گئی
اشہر فجر کی طرف دیکھتے ہوئے سوچنے لگا اے اللہ اس معصوم کی مدد فرما یہ بیچاری بن موت ماری جائے گی کتنی خوش ہے کتنی خوبصورت ہے
اس کو نہیں معلوم پولیس اس پہ نظر رکھے ہوئے ہے
اس کے ساتھ کیا ظلم ہونے والا ہے
اشہر تڑپ رہا تھا میں کسی معصوم کو یوں مرنے نہیں دوں گا بہت کوشش کے بعد بھی اشہر بات نہ کر سکا فجر سے
آخر اشہر نے ایک کاغذ پہ لکھا ٹیچر میں آپ کو جانتا ہوں آپ کی جان کو خطرہ ہے
اللہ کی قسم ہے مجھے میں سچ بتا رہا ہوں آپ عاقب کو کچھ نہیں بتائیں گی
پلیز آپ مجھے کل روز مارکیٹ میں ملیں
ایک کاغذ پہ لکھ کر ہوشیاری سے شاپنگ بیگ میں ڈال دیا
دعا کرنے لگا یا خدا مدد فرما
فجر گھر گئی بیگ بیڈ پہ رکھا لیٹ گئی ماں سے بات کرنے لگی
ماما عاقب بہت اچھا ہے بہت خیال رکھتا ہے میرا
میں بہت خوش ہوں بابا کیسے ہیں سب ٹھیک ہے نا
فجر کی ماں محلے والوں کو بتاتی میری بیٹی عیش کر رہی ہے عیش
رات عاقب آیا فجر کو سینے سے لگایا میری جان بہت خوش ہو آج خیر ہے نا
فجر پیار سے بولی عاقب میں آج شاپنگ مال گئی تھی آپ کے لیئے اور اپنے لیئے ایک جیسا ڈریس لیکر آئی ہوں
لیکن سوری تھوڑا مہنگا ہے
عاقب مسکرانے لگا میری جان مہنگے والی کیا بات ہوئی تمہاری خوشی سے زیادہ مجھے کچھ پیارا نہیں
شاپنگ بیگ کھولا عاقب کو ڈریس دکھانے لگی
وہ اشہر کا لکھا ہوا کاغذ باہر گرا عاقب کی نظر پڑ گئ
عاقب نے کاغذ اٹھایا کھولا
پڑھنے ہی لگا تھا کے فون کی گھنٹی بجی کال سنتے ہوئے کچن میں چلا گیا
وہ کاغذ کچن میں رکھ دیا بات کر رہا تھا ہادی پریشان تھا
شاید کسی نے بتایا تھا کے پولیس کو شک ہو گیا ہے ہم پہ
کمرے میں آیا فجر کو بولا جان تم۔سو جاو میں ایک میٹنگ میں جا رہا ہوں
فجر منہ بنا لیا جان آپ مجھے اب بہت کم ٹائم دیتے ہیں
فجر کچن میں گئی وہ کاغذ اٹھایا پہلے پھینکنے لگی پھر کھول کر دیکھا
جو لکھا تھا پڑھ کر حیران ہو گئی
یہاں کون جانتا ہے میں ٹیچر ہوں یہ کس نے لکھا ہے کون ہے
فجر بہت پریشان ہو گئی
پہلے سوچا عاقب کو بتا دیتی ہوں
پھر خاموش ہو گئی ماما سے مشورہ کرتی ہوں
ماں کو بتایا کسی نے کاغذ پہ ایسا لکھا ہے اور کہا ہے عاقب کو نہ بتانا ماں بھی پریشان ہو گئی
موسم خرابی کی وجہ سے کال بند ہو گئی
ساری رات پریشان رہی
عاقب کو کال ملائی عاقب کو بتاتی ہوں سب کچھ اس کاغذ بارے وہ خود دیکھ لے گا اسے
کال۔ملائی لیکن عاقب نے فون نا اٹینڈ کیا
اس نے دس بار ٹرائی کیا لیکن عاقب نے کوئی جواب نہ دیا
دوسرے دن ہمت کر کے چلی گئی مارکیٹ کے سامنے پہنچی تھی کے اشہر نے جلدی سے ہاتھ پکڑ کر اپنی کار میں بٹھا لیا
فجر شور مچانے لگی اشہر نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا میں نے ہی لکھا تھا آپ کو
فجر غصے سے بولی کیا چاہتے ہو تم
اشہر نے تعارف کروایا میرا نام اشہر ہے میری چھوٹی بہن کرن اپ۔کی اسٹوڈنٹ بہن ہے میری
فجر حیران تھی ہاں کرن کو جانتی میں لیکن کیسے یقین کروں تم۔سچ بول رہے ہو
اشہر نے جلدی سے موبائل نکالا کرن اور فجر کی رزلٹ والے دن کی تصویر دکھا دی
اشہر نے جلدی سے کہا فجر میر بات دھیان سے سنو
وقت بہت کم۔ہے ہمارے پاس عاقب بہت بڑا کرمنل ہے جو بیگ تم۔لوگوں تک پہنچاتی ہو اس میں براون شوگر ہوتی ہے
تمہارے ذریعے وہ بزنس کر رہا ہے
پولیس کی تم۔پہ نظر ہے
فجر نے اشہر کے منہ پہ تھپڑ مار دیا بکواس کرتے ہو
اشہر بے بسی میں بولا فجر سمجھنے کی کوشش کرو
فجر غصے سے کار سے باہر نکلی اب میرے پیچھے آئے تو پولیس کو بلوا لوں گی
اشہر نے آواز دی فجر ایک بار وہ بیگ کھول کر دیکھنا
اگر اس میں پاوڈر ہوا تو سمجھ جانا تم۔خطرے میں ہو
میرا نمبر پاس رکھ لو
ضرورت پڑے گی
فجر غصے میں گھر گئی بکواس کر رہا تھا کتنا کمینہ انسان ہے
الماری کھولی بیگ نکالا کھولا اس میں چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں پاوڈر تھا جسم کانپنے لگا سانس رکنے لگی
آنسو بہنے لگے
فجر گھر آئی الماری میں پڑا بیگ نکالا
دیکھا اس میں چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں پاوڈر تھا وہ کچھ نہ سمجھ پا رہی تھی
جسم کانپ رہا تھا سانس رکنے لگی
فجر کو اشہر کی بات یاد آئی جا کر دیکھنا اگر پاوڈر ہوا تو سمجھ جانا تمہاری جان کو خطرہ ہے
وہ کسی بھی وقت تم کو مار سکتے ہیں
ادھر پولیس نے کاروائی شروع کر دی تھی
عاقب نے اپنے شوٹر کو کال کی فجر کا کام تمام کر دو
اگر وہ پکڑی گئی تو سب اگل دے گی
عاقب ایک سکا ہوا میں اچھال کر مسکرانے لگا
جب تک لالچی لوگ زندہ ہیں
ایسے ہزاروں فجر ملتی رہیں گی بیچاری فجر
کتنا پیار کرتی مجھ سے
عاقب ایک درندہ تھا وہ فجر سے پہلے بھی بہت سی لڑکیوں کو یوں لالچ میں یہاں لا چکا تھا
وہ ایسا خاندان دیکھتا تھا جو اپنی بیٹی کی شادی کسی بیرون ملک لڑکے سے کرنا چاہتے ہوں
خیر شوٹر نے گن اٹھائی
خاموشی سے گھر میں داخل ہوا فجر کمرے میں بیٹھی تھی
وہ ڈر رہی
شوٹر فجر کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا
فجر نے کانپتے ہاتھوں سے اشہر کا نمبر ملایا
اشہر نے فون کان کے ساتھ لگایا
فجر رو رہی تھی مجھے ۔۔۔بچا لیں
اشہر نے حوصلہ دیا ریلکس فجر
اتنے میں پولیس پہنچ گئی شوٹر نے بھاگ جانے میں بھلائی سمجھی
اگر فجر پولیس کے ہاتھ لگ جاتی تو سزائے موت سنائی جاتی
اشہر نے فون کیا فجر تمہارے کچھ میں جو کھڑکی ہے اس کے پاس آو جلدی سے
فجر کھڑکی کے سامنے گئی
نیچے اشہر کھڑا تھا فجر چھلانگ لگاو/یہاں سے
فجر ڈر رہی تھی اشہر نے یقین دلایا میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تم کو
پولیس گھر میں داخل ہوئی اشہر فجر کو لے کر بھاگ گیا وہاں سے
پولیس نے بیگ پکڑ لیا براون شوگر والا
لیکن فجر بھاگ چکی تھی
ادھر عاقب کو گرفتار کر لیا گیا تھا
عاقب نے سارا الزام فجر پہ لگا دیا سب کنٹریکٹ فجر کرتی تھی
فجر کو مخلتف مقامات پر سی سی ٹی وی فوٹئج میں دیکھا گیا تھا
عاقب کا پورا گروہ گرفتار ہو گیا تھا صرف بھاگ نکلی تھی تو فجر
پولیس نے فجر کے اشتہارات جاری کر دیئے
نیوز میں عاقب کے بارے بریکنگ نیوز چل رہی تھی ساتھ فجر کی تصویر بھی چل رہی تھی کوسٹ وانٹڈ
اشہر نے اپنے پولیس والے دوست کو کال کی سب کچھ بتا دیا کیسے وہ فجر کو بچا کر لے آیا ہے
پولیس والے دوست نے سمجھایا اشہر پاگل نہ بنو
پکڑے گئے تو مارے جاو گے
بھلائی اسی میں ہے لڑکی کو قانون کے حوالے کر دو
اشہر غصے سے بولا دوست میں کسی بے گناہ کو مرنے کے لیئے نہیں چھوڑ سکتا
پولیس والے نے سمجھایا وہ سب قانون دیکھ لے گا اگر تمہاری دوست بے گناہ ہوئی تو چھوڑ دیا جائے گا
فجر نے بھی اشہر سے کہا مجھے پولیس کے حوالے کر دو
میں بے گناہ ہوں
اشہر نے معصوم سی آنکھوں میں دیکھا
فجر تم۔پاگل ہو بلکل یہاں کون سنے گا تمہاری
عاقب بہت بڑا کرمنل انسان ہے
۔۔۔۔
ادھر ماں نمبر ملا رہی تھی لیکن نمبر بند آ رہا تھا
ماں کا دل گھبرانے لگا
بار بار فجر کے بابا سے کہنے لگی 3 دن سے میری بیٹی سے بات نہیں ہوئی
میرے دل میں برے برے خیالات آ رہے ہیں
میری بچی جیسے کسی مصیبت میں ہو
باپ سر پکڑ کر بیٹھ گیا میں کہا تھا نہ شادی کرو اتنی دور
میں کوشش کر چکا تمام نمبرز بند آ رہے ہیں
میرا ایک جاننے والا وہ یونان ہوتا ہے اس سے پتا کرتا ہوں
کچھ شاید خبر مل سکے
جب باپ نے اس جاننے والے شخص خو فون کیا
بتایا میری بیٹی فجر ایسے شادی کر کے آئی تھی
اس کا شوہر عاقب فلاں جگہ رہے ہیں
ہمیں کچھ بتاو ان کے بارے
اس شخص نے بتاتا بلکل ایسے ہی نام کے آدمی کو پولیس نے گرفتار کیا جو سمگلر تھا اور فجر کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا آرڈر دے دیا گیا ہے اب مجھے نہیں پتا وہ آپ کی ہی بیٹی اور داماد ہیں یا کوئی اور
باپ یہ سن کر تڑپ اٹھا اتنی دور سے کیا کر سکتا تھا
گھر آیا چارپائی پہ گر گیا
ماں جلدی سے آئی کیا ہوا آپ نے پوچھا اپنے دوست سے فجر کے بابا نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا شاہد ہماری بیٹی مشکل میں ہے ماں کو ساری بات بتائی
ماں بے ہوش کر گر گئ
ہوش آیا رونے لگی میری بیٹی نے بہت کہا تھا ماں مجھے نہ بیجھو اتنا دور اے اللہ میری بیٹی کی حفاظت فرما
۔۔۔۔۔۔۔
اشہر فجر کو لیئے چھپا پھر رہا تھا
وہ وہاں سے بھاگ نہیں سکتے تھے فجر رو رہی تھی عاقب میرے ساتھ ایسا کیوں کیا
میری زندگی برباد کر دی
ایک دوست کے گھر چھپے تھے
دوست نے بتایا کچھ لوگ ہیں جو پیسے لیکر یونان سے باہر بیجھ سکتے ہیں لیکن اس میں جان کا خطرہ ہے
سوچ لو
اشہر نے دوست سے پوچھا کیسے باہر بیجھیں گے
دوست نے بتایا پیسے لیں گے اور بارڈر پار کروا دیں گے
اشہر نے فجر کی طرف دیکھا فجر کچھ بھی ہو جائے تم گھر سے باہر نہ نکلنا میں یہاں سے نکلنے کا کچھ سوچتا ہوں
اشہر جانے لگا فجر نے آواز دی
اشہر میں مرنا نہیں چاہتی اشہر نے مسکراہٹ سے حوصلہ دیا جب تک اشہر ہے تم کو کچھ نہیں ہونے دے گا
اشہر نے ان ایجنٹس سے بات کی انھوں نے 5 لاکھ کا کہا
5 لاکھ بہت زیادہ تھے بات 3 لاکھ پہ فائنل ہو گئی
3 سال کی کمائی کچھ دوستوں سے لیئے مشکل سے 3 لاکھ ہوئے
ایجنٹ کو دیئے
انھوں نے بتایا رات 12 بجے یہاں سے نکلیں گے
ہم آپ کو یونان کی بارڈر کراس کروا دیں گے
لیکن کچھ بھی ہو سکتا ہے پکڑے گئے تو وہی پہ گولی مار دیں گے
فجر ڈر رہی تھی
موت دونوں طرف تھی اشہر کے فجر کا ہاتھ تھاما فجر ہمت کرنا ہو گئی
ہمارے پاس صرف آج رات کا وقت ہے
پولیس نے فجر کی تلاش کا کام تیز کر دیا تھا
فجر بہت ڈر رہی تھی اشہر نے اپنے دوستوں کو شکریہ ادا کیا
فجر کا ہاتھ تھاما چل دیا
فجر کا سفید چہرہ پیلا پڑ چکا تھا
وہ جیسے موت کو سامنے دیکھ رہی تھی
جتنا وہ نصیب سے ڈرتی تھی قمست نے اتنا ہی اسے تڑپا دیا
سکول ٹیچر سے کرمنل بن گئی تھی
کیسے زندگی نے رنگ بدلا تھا
کیسے پل بھر میں موت کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی
ایجنٹس نے ایک کار میں بٹھایا بارڈر کے کچھ فاصلہ پہ اتارا کار واپس چلی گئی ایک آئل والا ٹینکر آیا اس میں اور بھی لوگ تھے اوپر آئل بھرا ہو تھا نیچے خانہ بنا کر لوگوں کو چھپایا تھا
اندھیرا تھا سانس بند ہونے لگتی تھی
وہ خدا جانے کون سی زبان بول رہا تھا خانے میں بند کیا پھر ایک اور آدمی آیا کہنے لگا کچھ بھی ہو جائے آواز نہ نکلے تم۔لوگوں کی
وہ ٹینکر چلنے لگا
فجر کی سانس بند ہونے لگی تھی
آہستہ سے بولی اشہر میرا سانس بند ہو رہا ہے
اشہر نے فجر کی کمر پہ ہاتھ رکھا فجر یہاں ہمت ہارو گی وہی ہار جائیں گے ہم
اشہر آہستہ سے بولا اپنی سٹوڈنٹ کرن سے ملنا ہے نا جا کر
تو پھر ہمت کرنا ہو گئی ٹیچر جی
ٹینکر کسی بہت خراب راستے سے گزر رہا تھا ایک جگہ ٹینک رکا
یوں محسوس ہونے لگا یہاں چیکنگ ہو رہی تھی
اللہ اللہ کر کے چیکنگ ختم۔ہوئی ٹینکر پھر چلنے لگا تھا
کافی وقت گزرنے کے بعد ٹینکر ایک جگہ رک گیا
خانے کا دروازہ کھلا روشنی کی کرنیں نظر آئی
جلدی سے باہر نکلے برا حال ہو چکا تھا
کپڑے پسینے سے بھیگ چکے تھے
فجر کا ہاتھ پکڑآ باہر نکالا انھوں نے بتایا آپ لوگ یونان کی حد سے باہر نکل۔چکے ہے اس وقت استنبول میں ہیں اس سے آگے ترقی شروع کو جائے گا اس سے آگے آپ کو پیدل سفر کرنا ہو گا
ہمارا ایک آدمی آپ کو ترقی کے بارڈر تک چھوڑ دے گا
سامنے جنگل تھا پہاڑ تھے
فجر کو ڈر لگ رہا تھا ساتھ اور بھی لوگ تھے وہ مخلتف ملکوں میں جانے والے تھے پاکستان آنے والے صرف فجر اور اشہر تھے وہ سب صرف ترقی رک ایک ساتھ تھے
وہاں ان لوگوں نے کچھ بسکٹ دیے کھانے کو
دو گھنٹے کے بعد سفر شروع کیا
فجر کی طرف دیکھ کر بولا اب ہم۔خطرے سے باہر ہیں ہم۔یونان کی سر زمین کو چھوڑ آئے ہیں
فجر ہلکا سا مسکرائی
اشہر بھی مسکرانے لگا کتنی پیاری لگتی ہو مسکراتے ہوئے
سفر شروع ہوا پیدل چلنے لگے
سفر بہت لمبا تھا خدا جانے کب کہا کیا ہو جائے
وہ دن اور رات بھر چلتے رہے پاوں درد کرنے لگے تھے
فجر تھکن سے بے حال ہو گئی تھی لیکن رک نہینہیں سکتے تھے
فجر زمیں پہ بیٹھ گئی اشہر اب نہیں ہمت مجھ میں
اشہر نے بانہوں میں اٹھا کیا فجر بس ترقی کا بارڈر پار کر لیں پھر ہم کو کوئی خطرہ نہیں ہے
فجر کو بہت تیز بخار تھا
لیکن اب کیا کیا جا سکتا تھا
فجر کو بانہوں میں اٹھائے صبح سورج نکلنے سے پہلے بارڈر کراس کرنا تھا
ایجنٹ نے بتایا بس میرا سفر یہاں ختم۔ہوتا ہے وہ سامنے ترقی بارڈر ہے
اس پار زندگی آپ سب کی منتظر ہے
ایجنٹ الوداع کہہ کر واپس لوٹ گیا
اب ٹوٹل 11 لوگ تھے ایجنٹ ساتھ تھا تو ہمت تھی اب خود سب کچھ کرنا تھا
ایجنٹ دیکھتے دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا اس کے بعد ترقی کی فوج وہاں پہنچ جاتی
بارڈر کے قریب پہنچے کانٹے دار تار لگی ہوئی
جس میں کرنٹ تھا
اس کے نیچے سے تھوڑا سا راستہ تھا لیٹ کر گزرنا تھا
مشکل سے وہاں سے گزرے
جو گزرتا وہ دوڑ لگا دیتا
کیوں کے بارڈر سے دور بھگانا ضروری تھا
سب نے بارڈر پار کر لیا فجر کو اشہر نے کہا آرام سے گزر جاوں فجر
فجر ڈر رہی تھی اشہر میرا ہاتھ پکڑ کر رکھو
اشہر مسکرایا مجھ پہ یقیں ہے نا میں ساتھ ہوں تمہارے
فجر نے بھی آخر وہ موت کی تاریں کراس کر لی
جلدی سے کھڑے ہو کر بولی اشہر آ جاو جلدی سے وہ دیکھو سب بھاگ رہے ہیں
اشہر بھی جلدی سے کراس کیا بھاگنے لگے
وہ دوڑ رہے تھے کے اب سب کو الگ الگ اپنے اپنے راستے جانا تھا وہاں ایک ایرانی بھی تھا اشہر نے اس سے کہا ہم۔کو ایران تک ساتھ کے جاو ہم کو راستہ معلوم نہیں
وہ چلنے لگے ایک جنگل میں پہنچے
ہر طرف جنگلات تھا سامنے دیکھا انجیل کے پودے تھے
بھوک سے برا حال تھا انجیل پک چکی تھی وہ کھانے لگے
سفر کافی لمبا تھا
فجر پوچھنے لگی اشہر مجھے کیوں بچایا تھا آپ نے
اشہر مسکرایا کیوں کے آپ میری کرن کہ ٹیچر ہیں
معصوم سی
آپ کو اگر وہاں کچھ ہو جاتا نا تو میں کبھی خود کو معاف نہ کرتا
اگر آپ نے مجھ نہ دیکھا ہوتا تو میں آ ج مر گئی ہوتی
اشہر پیار سے بولا اللہ کو جو منظور وہی ہوتا ہے
ہمارا یوں ایسے ملنا پھر مشکلات سے گزرنا لکھا تو تو ہم گزر رہے ہیں
10 دن سے سفر میں تھے حالت بہت بری ہو چکی تھی
دور سے ایران نظر آنے لگا
زندگی مسکرانے لگی تھی اشہر پیار سے بولا ویسے کھانے می کیا مس کر رہی ہو فجر افسردہ ہو کر بولی ماما کے ہاتھ کے آلو والے پراٹھے اور گول گپے
فجر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
اشہر کیا ہم۔پہنچ جائیں گے نا پاکستان
اشہر نے پیار سے جواب دیا اللہ نے چاہا تو ہم۔پہنچ جائیں گے
اشہر نے گھڑی پہنی ہوئی تھی بازو پہ
وہ گھڑی کو چوم کر بولا یہ میرے بابا نے مجھے گفٹ کی تھی کہتے تھے بیٹا اہنا ملک چھوڑ کر نہ جانا کبھی
لیکن میں ان کی بات نہ سمجھ سکا تھا
گھڑی بہت مہنگی تھی راڈو ڈائمنڈ
وہ چلتے رہے اور پھر ایران کی دھرتی پہ جا پہنچے
ایرانی شخص بہت خوش تھا وہ چیخ چیخ کر رونے لگا
پھر اشہر سے کہنے لگا یہاں کچھ لوگ ہیں جو آپ کو سمندر کے ذریعے کراچی تک لے جا سکتے ہیں
لیکن وہ پیسے لیں گے
اشہر اداس ہو کر بولا ہمارے پاس تو کچھ نہیں ہے دینے کو اب
جب وہ ایجنٹ سے ملا تو اسے اپنے بابا کی ڈائمنڈ گھڑی دی بولا پاکستانی 10 لاکھ کی ہے
آپ رکھ لیں ہم۔کو کراچی تک پہنچا دیں بس
ایجنٹ نے گھڑی کا معائینہ کیا
ہاں میں سر ہلایا بوٹ میں بیٹھنے کا کہا
وہ لمبا سفر کرنے کے بعد کراچی کے قریب پہنچ گئے
ہاتھ دکھا کر بولا وہ سامنے آپ کا کراچی
خوشی کی انتہا نہ رہی تھی رات 2 بجے اس نے کراچی کی سر زمین پہ اتار دیا
اترتے سجدے میں گر گئے رونے لگے تھے دونوں
بوٹ والے کو جائے بولا اور شہر کہ جانب چلنے لگے ایک اندھیرا کا سفر مکمل ہوا تھا
شہر می داخل ہو رہے تھے فجر کی اذان ہونے لگی دکانیں اوپن ہونے لگی تھیں جگہ جگہ پاکستان کا نام لکھا تھا
جیسے کوئی خواب پورا ہو گیا ہو
اشہر نے اپنے دوست کو کال کی مجھے کچھ پیسے بیجھو میں کراچی ہوں
دوست حیران تھا اشہر نے سمجھایا سب کچھ بعد میں بتاوں بس کچھ پیسے بیجھو
کپڑوں کی حالت کافی خراب تھی فجر کے پاوں پہ زخم ہو چکے تھے وہ موت سے لڑ کر آئی تھی
پیسے ملے کچھ شاپنگ کی فجر کو ایک پالر لے گیا
فجر بہت پیاری لگ رہی تھی
ٹرین کی ٹکٹیں لی لاہور کو روانہ ہو گئے
فجر کا دل زور سے دھڑک رہا تھا ابھی تک اشہر کا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا
اشہر کے کندھے پہ سر رکھ کر سو گئی
لاہور پہنچے اشہر نے فجر کو جگایا آنکھ کھلی اعلان ہو رہا تھا ٹرین لاہور پہنچ چکی ہے
فجر کی آنکھوں سے نے ساختہ آنسو نکل آئے
لاہور کی دھرتی پہ قدم رکھے وہ اپنے لوگ ہر طرف دکانیں لگی ہوئی
ریڑھی والے آوازیں لگا رہے تھے جنت سا سماں تھا
ہاتھ ابھی تک پکڑا ہوا تھا اشہر کا ٹیکسی لی فجر کہ گھر کی طرف جانے لگے
گھر کے دروازے کے سامنے پہنچے اشہر نے ہاتھ چھڑایا
فجر گھر آ گیا آپ کادستک دی بھائی نے دروازہ کھولا
فجر کو سامنے دیکھ کر چیخنے لگا بابا آپی آ گئی بابا
ماں آپی آ گئی
ماں بیمار ہو چکی تھی بہت فجر کے غم میں
فجر کو یوں سامنے دیکھا رونے لگی بابا نے سینے سے لگایا میری بچی
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میری بیٹی سلامت ہے
فجر ماں کے سینے سے لگی ہوئی تھی ماں چوم رہی تھی اپنی بچی کو
اشہر کھڑا دیکھ رہا تھا پھر جانے لگا
فجر نے دوڑ کر ہاتھ پکڑ لیا
اشہر کی آنکھوں میں دیکھنے لگی
اشہر کہاں جا رہے ہو مجھے چھوڑ کر
اشہر مسکرانے لگا تو اب آپ گھر پہنچ گئی اب میرا کام۔ختم۔
فجر نے اشہر کے ہاتھ کو چوما اشہر دھڑکن کہتی ہے تم چھوڑ کر گئے تو رک جائے گی
مجھے زندگی دے کر اب خود سے جدا کر رہے ہو
اشہر نہیں رہا جائے گا آپ کے بنا اب
آئی لو یو اشہر
اشہر نے فجر کو سینے سے لگایا آئی لو یو ٹو میری جان
اشہر اور فجر نے نکاح کر لیا
فجر نے پھر سکول جوائن کر لیا
اشہر کے ساتھ محبت بھری زندگی گزارنے لگی
ماں اب ہر کسی کو کہتی پھرتی ہے
کبھی لالچ میں آ کر بیٹیوں کی زندگی کا فیصلہ نہ کریں
خوشیاں پیسوں سے دولت سے نہیں ملتی اچھے ہمسفر سے ملتی ہیں
بڑے گھر گاڑیوں نوکر چاکر والے گھروں میں بھی عورت کو عورت دیکھا ہے ہمسفر کی بے رخی پہ
اور کچے مکان لکڑی کے دروازے والے گھر میں عورت کو مسکراتے دیکھا ہے ہمسفر کی وفاداری پہ
پیسہ دیکھ کر بیٹی کی زندگی کا فیصلہ نہ کرو انسان خاندان دیکھ کر کرو
یوں ایک کہانی مکمل ہوئی اجازت دیجئے ملتے ہیں ایک نئی کہانی کے ساتھ
ختم شد

Comments